نامور شاعر حمایت علی

Published on July 18, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 518)      No Comments


تحریر شاھد نعیم (جدہ)
نامور شاعر حمایت علی شاعرؔ انتقال کر گئے،
انا للہ وانا الیہ راجعون
ان کا نام میر حمایت علی اور شاعرؔ تخلص ہے 13 جولائی 1926 کو اورنگ آباد(دکن) میں پیدا ہوئے۔ روزنامہ ’خلافت‘ میں کام کیااور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ’’ثلاثی‘‘ کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’آگ میں پھول‘، ’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دود چراغ محفل‘ (مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘ (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، *’آئینہ در آئینہ‘ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘ (نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘ (فلمی نغمات)، ‘کھلتے کنول سے لوگ‘ (دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘ (پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعرؔ کو نگار ایوارڈ (بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔پاک ھند جنگ کے دور میں جن شعرا ء نے اس واقعہ کو شعری پیکر میں ڈھالا، جنگی ترانے فضا میں بکھرے،رزم نامے تخلیق ہوئے، قومی اور ملی عکاسی کی نظمیں لکھی گئیں۔ گیت اور غزل کے روپ میں جذبہ آزادی کا احساس قومی گونج بن کر اج بھی سنائی دیرہا ہے ان میں حمایت صاحب کا نام بھی سرفہرست رہا…مسعود رانا نے حمایت علی شاعر جنکا پیدائشی نام حمایت طراب ہے، کے لکھے ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن، ’’اے دشمن دین تو نے‘‘ ترانے گائے،حمایت علی شاعر کا ایک نغمہ للکار بن کر ابھرا تھا ۔

لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے

لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے

ہم اس لہو کا خراج لیں گے

93 برس 16 جولائی 2019ء کو کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں رحلت فرما گئے، جہاں اپنے بیٹے بلند اقبال کے پاس مقیم تھے، ان کی وفات کی تصدیق ان کے فرزند اوج اقبال نے کی جو کراچی میں مقیم ہیں،
شاعر صاحب نے اپنے بچپن کی ساتھی، اور اپنی پسندیدہ لڑکی، معراج نسیم سے نوعمری میں ہی شادی کرلی۔ بیگم ایک طویل اور بہترین رفاقت کے بعد 2002 میں ٹورونٹو میں انتقال کرگئیں، اور وہیں پکرنگ کے قبرستان میں مدفون ہیں۔شاعر صاحب کے 4 لڑکے اور 3 لڑکیاں ہیں۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ، اور اچھے مقامات پر اپنے ماہرانہ میدانوں میں فائز ہیں،
انکا معروف ملی رزمیہ نغمہ “لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے، لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے، ہم اس لہو کا خراج لینگے… مرحوم حبیب ولی محمد نے گایا، اسکی گونج آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے… اللہ حمایت علی شاعر کو غریق رحمت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے.. آمین

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy