جرمن دانشور کے پاک بھارت کے لئے مثبت مشورے

Published on February 9, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 421)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
ایک یورپین کی حیثیت سے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور یقینا آپ کے لئے بھی یہ بات باعث حیرت نہیں ہو گی ۔ کہ یورپ کی طرح ایشیاءکے لئے بھی علاقائی تعاون مستقبل میں یقینی کا میابی کی کنجی ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیاءمیں علاقائی تعاون کی تنظیم ،سارک میں جو مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہا تھا جرمنی اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا آرہا ہے۔سارک کے ممبر ملکوں میں  103بلین افراد آباد ہیں۔جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے برابر ہےں۔اس لحاظ سے سارک دنیا میں علاقائی تعاون کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔حال ہی میں سارک کی سر براہ کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلے بہت حوصلہ افزانظر آرہے تھے خاص طور سے 2001ءتک علاقے میں آزاد تجارتی خطے کے قیام کا منصوبہ انتہائی خوش آئیند تھا۔اسی طرح پاکستان اور بھارت کے وزیراعظم کے درمیان برسو ں کے بعد ہونے والی گذشتہ بات چیت کا جرمنی نے خیر مقدم کیا تھا۔ اور اسے سراہا بھی تھا دونوں ملکوں کے دوست کی حیثیت سے جرمنی نے ان دونوں ممالک کے درمیان ڈائیلاگ کی ہمیشہ حمائت کی اور یہ بات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لئے مل جل کر پیشہ فت کریں۔ یہ اچھی علامت ہے کہ ستر برس کی عمر کو پہنچ کر دونوں ملکوں نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ مل جل کر کام کرنا دونوںملکوں کے مفاد میں ہے مگر افسوس کہ جب سے نریندرمودی نے اقتدار سمبھالا ہے چہ جائیکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آکر امن وسلامتی کا پرچم بلند کرکے دونوں ممالک اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے انقلابی اقدامات اٹھاتے اور برصغیر میں دوستی کو عروج دلاتے افسوس کہ اب تک بجائے امن و سلامتی کے لئے دونوں ممالک کے سربراہ کچھ کرتے مودی سرکار نے جنگ کے بادل کشمیر وادی میں ہر طرف پھیلا دئے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ پاکستان اور بھات کے بہت سے لوگوں کے لئے اپنا موقف ترک کرنا بہت مشکل ہوگا جو برسوں کے خیالات کے بعد ان کے ذہن میں جاگزین بن چکا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نقطہ نظر میں تبدیلی ممکن ہے۔ یورپ کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ کہ جرمنی اورفرانس ، جرمنی اور پولینڈ نے تلخ اور تکلیف دہ ماضی بھلا کرمفاہمت کو فروغ دیا۔ ایک اور عمدہ مثال نیٹو اور روس کے تعلقات کے لئے بھی یہ مثالیں امیدافزا اور نتیجہ خیر ہو سکتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلق کے موجودہ دور میں کوئی ملک اپنے وسائل اور توانائی کو تنازعات اور ہتھیاروں کی بھینٹ چڑھانے کا متحمل نہیںہو سکتا۔ اگر یہ دونو ں عظیم ممالک مفاہمت کی راہ پر گامزن ہوجائیں تو ترقی کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے وسائل اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے استعمال کریں۔میری نظر میں نریندر مودی کے ہوتے ہوئے ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے تصفیے کی خاطر اعتماد اور مفا ہمت بڑھانے کے لئے بہت زیادہ کوششوں اور مدبرانہ بصیرت کی ضرورت ہوگی۔ یہ بھی نہیں کہ کشمیر جیسے گھمبیر مسئلے کے حل کے لئے جنگوں میں الجھ کر پورے برصغیر کو مصائب میں ڈال دیں۔جرمنی پاکستان کا ساتھی اور دوست ہے ۔ مستقبل میں اس عظیم ملک کی پر امن خوشحالی کے لئے اشتراک عمل اور خوشحالی کا خواہشمند ہے میں اسی جذبے کے تحت آزاد اور خوشحال ملک کو امن سلامتی کی طرف بڑھتے دیکھنے کا متمنی ہوں۔بلاشبہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے کا متمنی بھی ہے۔تاکہ دونوں ملکوں کے عوام بھوک وتنگ کی دلدل سے نکل کر جرمن کی طرح ایشیاءکو صنعتی، زرعی اور سماجی ترقی کا گہوارہ بنادیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے بیشتر عوام مثالی دوستی بنانا چاہتے ہیں اور غربت کے جزیرے پاش پاش کر کے خوشحالی اور ترقی کے راستے تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ کلاو س کنکل کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک مل جل کر جرمن کے ساتھی بن کر ترقی و خوشحالی کا انقلاب برپا کر دیں ایک مدت سے جرمن کی خواہش رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت جرمن سے صنعتی ،زرعی میدان اور ایسے دیگر شعبوں سے فائدے حاصل کریںاسی میںہم سب کی فلاح اور بہتری ہے۔ لڑائیوںاور جنگوں میں پڑکر غریب عوام کو تنگ بھوک کی دلدل میں پھنسا کر کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یورپ سے سبق سیکھیے جنہوں نے دو عالمی جنگوں میں خود کو تباہ و برباد کیا اب وہ پوری دنیا کے لیے خوشحالی کی مثال بن چکے ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题