سندھ اور موت کے سوداگر

Published on April 5, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 582)      No Comments

maher sultan
بے رنگ شفق ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصور بھوکا ہے سلطان یہاں اندھے ہیں
ایک طرف سندھ میں ثقافت کے رنگ بکھیرے جا رہے تھے تو دوسری طرف میں سندھ دھرتی کا بیٹا ہوں کا نعرہ لگانے والا اسی علاقے میں بھوک و پیاس اور سردی سے ٹھٹر کر مرنیوالوں کو دیکھنے سے قاصر تھا شائد اس نوجوان لیڈر کے لیے یہ انسان نہیں تھے یہ نوجوان جو اپنے پالتوں جانوروں کے لیے کروڑوں خرچ کردیتے ہیں شراب و شباب کو ثقافت کا نام دیکر دل کھول کر عیاشی اپنے عروج پر تھی مگر قاتل صحرائے تھر میں قحط سالی ،بھوک و افلاس کا پروانہ لیے ایک ایک فرد خاص کر معصوم بچوں کو پیغام ابدیت سنا رہی تھی معصوم بچے گندم کے ایک ایک دانے اور گندے پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے تھے کیونکہ صاف پانی تو خواب تھا گندہ بھی پینے کو نہیں مل رہا تھا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں جارہے تھے خلیفہ دوم نے کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر گیا تو روز محشر مجھے جواب دینا ہوگا مگر یہاں پر تو سیاسی جانشین جس کا نعرہ سندھ میری ماں ہے کا نعرہ لگا کر ان سب چیزوں کو دیکھنے سے عاری تھا شائد وہ خود اور اس کے ہم نوا ء منرل واٹر پی کر اور ثقافتی شو میں مدہوش کر صرف ان کو انسان سمجھتا ہوگا جو اسکے سامنے قوانین قدرت کی دھجیاں اڑا کر نیم عریاں لباس میں انسانی جسم تھرک رہے تھے اور سندھ کے صحرا میں ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں چل کر صبح سے لیکر شام تک کام کرنیوالے اس سندھ کے بقول سابقہ بلوچ صدر آصف علی زرداری صاحب بے تاج بادشاہ اور آج کی شام بلاول کے نام کو نظر نہیں آئے ہوں گے کل سند کے زہین ترین وزیراعلیٰ جو کہ انگلش اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ گورا بھی نہیں بول سکتا نے یہ کتنے منافقانہ لفظ بولے کہ سابقہ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا ہم ان لوگوں کو سب کچھ دیں گے تو جناب محترم شاہ صاحب سے سوال ہے کہ سابقہ حکومت بھی تو آپ کی تھی کیا کیا جنا ب جو اب للکار دی ہے آپ نے تھر میں پڑی گندم اور ادویات صرف وڈیروں اور جاگیرداروں کے لیے تھیں ان غریب ہاریوں کے لیے نہیں جن کے بچے اللہ جانے کس ناکردہ گناہ کی سزا پا رہے تھے پینے کو پانی نہیں تھا کربلا کا میدان سندھ کا تھر بنا دیا گیا تھا ان پر ۔کیسی اچھی تربیت کی گئی تھی جناب میرے بزرگ مخدوم امین فہیم صاحب نے جن کا بیٹا کمشنر کی سیٹ پر قابض تھا مگر اس کی تربیت ہی ایسی تھی کہ یہ انسان نہیں ہیں لہذا ان کو کچھ نہیں ملنا چایئے میرے شریف اور بھولے شاہ صاحب ان ہاریوں کی وجہ سے ہی آپکو یہ بوفے ، مٹن اور مچھلیاں کھانے دستیاب تھیں تھر کے دورے پر ایک طرف لوگ پیاس سے مر رہے تھے اور آپ ان لذیذ کھانوں کو اڑا رہے تھے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بچے کسی غریب کے فاقوں سے مر گئے
سندھ میں ہونیوالی حالیہ اموات کو سامنے لائے جانے پر میڈیاء سے ناراض نظر آتے ہیں (میں مرسوں، پر سندھ نہ ڈیسوں )کا نعرہ لگانے والا یہ پرجوش نوجوان سندھ پر اپنی جان قربان کر رہا ہے ہاں جناب میرے بھائی صاحب آپکا ہی ہے سندھ اس لیے کے جناب ان کو کھانے کو نہ مل جائے ورنہ یہ کچھ اور بھی مطالبہ کریں گے جناب عظیم لیڈر زولفقار صاحب کے نواسہ جی ! وہ تو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے تھے اور ان کو صاف پانی تک نہیں دے سکتے ہیں دینے کی بجائے وہ بھی ان سے چھینا جا رہا ہے کیا اس سندھ دھرتی کے جیالوں کو عرصہ دراز سے کراچی کا تباہ شدہ امن نظر نہیں آرہا ہے جہاں روزانہ سینکڑوں ماؤں کی گودیں ،سہاگنوں کے سہاگن ،بہنوں کی بھائی ،بیٹوں کے باپ اور بوڑھے ماں باپ کے سہارے اندھی موت کا شکار عرصہ دراز سے ہورہے ہیں بوری بند لاشیں روزانہ کراچی کے باسیوں کا منہ چڑاتی ہیں ارے بھائی بلاول صاحب جیسی آصفہ کو آپ سے پیار ہے اسی طرح وہ نوجوان جن کو روزانہ ٹارگٹ کلنگ کے مٹی میں دفن کیا جارہا ہے وہ بھی بہنوں کے بھائی ہیں جناب آپ سندھ کے والی وارث ہیں بے تاج بادشاہ ہیں آپ کیسے محافظ ہیں آپ بقول عوام کے محافظ نہیں بلکہ موجودہ اور سابقہ سیاستدان موت کے سوداگر بن چکے ہیں کراچی میں کون کون سا ظلم نہیں ہو رہا یہاں ۔جناب میرے محترم بزرگ اور عزت ماٰب سابقہ صدر آصف علی زرداری صاحب ،جناب شاہ صاحب اور متحدہ کے پیارے اور غریب نواز اراکین اسمبلی آپکی عرصہ دراز سے سندھ پر کرحکمرانی چل رہی ہے تو آپ نے کیا دیا ہے ان سندھ کے بوری بند لاشوں کو وصول کرنے والوں کو آپ نے اور تو اور جناب ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم صاحب جو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ تھرکول منصوبے کا افتتاح کرتے ہیں مگر وہ بھی ان غریبوں کو نہیں دیکھ سکے کراچی ہمارا ہے مختلف جماعتیں نعرے لگاتی ہیں مگر ہائے افسوس کہ کراچی کی عوام کو آج تک مسیحا نہیں مل سکا ایک دلیر قسم کے جرنیل صاحب کا ٹرائل چل رہا ہے ان کے ہم نوا جو آج مظلوم ہونے کا دعوی کرتے ہیں انکے دور حکومت میں بھی مئی کے مہینے میں کراچی والوں کو لاشوں کا تحفہ دیا گیا تھا آج وہی لوگ پورا پاکستان بچانے کا نعرہ لگاتے ہیں کتنا سچ بولتے ہیں یہ سب کیا مکروہ دھندہ کھیلا جا رہا ہے میرے نزدیک ان شریف حکمرانوں کا پسندیدہ ہوگا یہ کھیل کیونکہ جب کوئی مجرم نما سیاسی کارکن پکڑا جاتا ہے تو یہی حکمران اس کو چھڑواتے ہیں چاہے وہ سو مار ے یا دس ۔ اگر یہ پسندیدہ کھیل نہ ہوتا تو خدا کی قسم امن ہو جاتا کراچی میں یہاں ہی بس نہیں ہوتی میں ایک دن نجی چینل پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں پنجا ب سے اغواء کرکے لائی گئی حواء کی بیٹیوں کو لیاری میں ایک خفیہ کمپاؤنڈ سے برآمد کروایا گیا ان کو بچپن میں اغواء کیا گیا تھا اور شعور تک آنے پر ان سے جنسی خواہشات کی تکمیل کا کام لیا جانے لگا اور آخر کار ان تک میڈیاء ٹیم کی رسائی ہو گئی اور انکی دکھ بھر ی داستان سن کر روح کانپ رہی تھی تو جناب میں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کبھی اس طرف بھی خیال کیا ہے آپکے شاہ صاحب نے ان میں سے ایک نے بتایا کہ اس کا تعلق رحیم یارخاں سے ہے اور وہ بائیس سال سے یہاں پر ہے اس پر بے پناہ جسمانی اور جنسی تشدد کیا جاچکا ہے اور صرف اس پر ہی نہیں بلکہ اس کی دو سالہ بچی پر بھی جب وہ اس کام سے انکار کرتی تو اس پر بھی بدترین تشدد کیا جاتا اور نتیجہ یہ کہ اس کی ٹانگ توڑ دی گئی آسمان گر پھٹا نہیں کیسا پھٹتا کوئی حکمران ہوتا تو تب نہ ظلم کی حکومت ہے ہلاکو خاں حکومت کرر ہا ہے جیسے۔ اسی طرح کی دوسری حوا ء کی بیٹیاں بھی اپنی داستاں سنا رہی تھیں تو موت کے سوداگر نے کیسا نظام چلا لیا ہے بھتہ لینے ،سپاری لے کر قتل کرنے،اغواء برائے تاوان اور سرکاری اسلحہ فروخت کرنے جیسے جرائم میں کراچی پولیس ملوث ہے تو شاہ صاحب کیا جواب ہے آپکے پاس ؟ ڈی جی رینجرز نے پچھلے دنوں پریس کانفرنس کرت ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ہم انتہائی مطلوب بندوں کو پکڑتے ہیں مگر پولیس معمولی ناجائز اسلحے کا مقدمہ بنا کر چھوڑ دیتی ہے مختلف جرائم میں ملوث افراد کے گرفتار ہونے پر سیاستدان حضرات ان کو چھڑ ا لیتے ہیں ان کو سیاسی کارکن کا نام دیا جاتا ہے تو کراچی کے سیاستدانوں سے میرا یہ سوال ہے کہ بائیس مئی کو ہونے والی قتل و غارت کیا وہ آسمان سے آگئے تھے یا زمین سے نکل مردوں نے وہ کام کیا تھا ان موت کی سوداگر جماعتوں نے اپنے اپنے عسکر ی ونگز بنا رکھے ہیں جو اپنے ڈیتھ سکواڈ کے زریعے لوگوں کو موت دیتے ہیں فرعون والا کام جاری ہے اندرون سندھ جب کسی کا دل چاہے حواء کی بیٹی کی عزت نوچ لے یا اسے کاری قرار دے کر زندہ درگور کردے ۔اور نعرہ پھر بھی یہی لگتا ہے کہ ہم محافظ ہیں اس علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے مگر قلم لکھنے سے قاصر ہے کیا یہ اسلامی ملک ہے ؟ کسی کے پاس ہے جواب یا منافقوں کا ملک ہے پھر میرا لاڈلا نوجوان جو سیاسی جلسوں میں للکاریں تو بہت مارتا ہے مگر جب یہ ظلم ہوتے ہیں تو میں مرسوں پر سندھ نہ ڈیسوں والا بلاول کہا ہوتا ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题