خاتون پاکستان کی 121 ویں سالگرہ

Published on July 31, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 770)      No Comments

Akhtar
۔محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں قوم نے آپ کو مادر ملت اور خاتون پاکستان کے خطاب سے نوازا آپ قائد اعظم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں والد کا نام جناح پونجا والدہ کا نام مٹھی بائی آپ کے دوسرے چھ بہن بھائیوں کا نام محمد علی ،رحمت علی،مریم بی بی ،احمد علی،شیریں ،بندے علی تھے آپ کی پیدائش کے موقع پر قائد اعظم لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس وقت فاطمہ جناح کی عمر دو سال ہوئی تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔17 اپریل 1902 کو آپ کے والد کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ کے بڑے بھائی محمد علی جناح نے گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کو اچھا نہ سمجھا جاتا تھا مگر آپ کے بھائی نے آپ کو سکول میں داخل کروا دیا جہاں سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر 1913 میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1919 میں کلکتہ میں ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لیا اور 1922 میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923 ممبئی میں پریکٹس شروع کر دی ۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ وہ عہد ساز شخصیت جنہوں نے پہلی مرتبہ بیسویں صدی کی خواتین کے لئے سیاسی سفر کا آغاز کیا ،آپ نے خواتین کی صلاحتوں کو اجاگر کرنے اور ان کو سیاسی میدان میں فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا ، ان کے قوم پر اس قدراحسانات ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا، بظاہر ایک کمزور سی خاموش طبع خاتون مگر بہادر ایسی کے بر صغیر کے عظیم لیڈر محمد علی جناحؒ کے تمام حوصلے اور سیاسی طاقت ان ہی کی مرہون منت تھی اور دور اندیش ایسی کہ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ میں کوئی بھی سیاسی حتمی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جناحؒ کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ \”ہر کامیاب اور عظیم شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے \”اور اس معقولے کو فاطمہ جناح ؒ نے ازلی زندگی بخشی، قائد اعظمؒ نے خود فرمایافا طمہ جناحؒ میرے لئے حوصلے کا ذریعہ ہے، ان دنوں جب مجھے خدشہ تھا کہ برطانیہ حکومت مجھے قید کر لے گی تو فاطمہ نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ جب تک پاکستان رہے گا قائد اعظمؒ کا نام رہے گا،اس کے ساتھ فاطمہ جناح کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی عظیم کام کے لئے انتھک محنت ، کوشش اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں اسی وقت میسر آتی ہیں جب انسان اپنے اردگرد کے ماحول میں پرسکون یکسوئی سے رہ رہا ہو ، چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اور بڑے بڑے مسائل اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے تو پھر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب ان سب چیزوں کو سنبھالنے والا کوئی ہو، اگر ہم قائد اعظمؒ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تواس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ان سب الجھنوں سے آپ کو آپ کی بہن نے دور رکھا ۔ ان کی سیاسی زندگی انتہائی مصروف اور اہم موڑ پر تھی تو فاطمہ جناحؒ ان کے لئے ایک عظیم سہارا بن سامنے آجاتی ہیں اور قائد اعظمؒ کے تمام بوجھ کو اپنے ناتواں کندھے پر اٹھا لیتی ہیں، صرف یہ ہی نہیں ان کی دیکھ بھال ایک ماں کی طرح کرتی ہیں ان کے مسائل کو گہری اور دور اندیشی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انہیں مفید مشورے دیتی ہیں ، ان کے وقت اور مصروفیات کا بہترین شیڈول بناتی ہیں اور جہاں کہیں قائد اعظمؒ پریشان نظر آتے ہیں تو فاطمہ جناحؒ سفید پیرہن اوڑھے آسمانوں سے اتری کوئی سادہ مگر پروقار پری کی طرح آپ کے شانہ بشانہ آکھڑی ہوتی ہیں اور پھر تمام مسائل مشکلات و تکالیف ایسے حل ہوتی ہیں جس طرح کبھی تھیں ہی نہیں، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے شبانہ روز قائداعظمؒ کی خدمت کی یہ خدمت در حقیقت ایک بھائی کی خدمت نہ تھی بلکہ ایک عظیم قومی راہنما کی خدمت تھی، وہ یہ جانتی تھیں کہ اگر قائد اعظم ؒ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کامیابی اصل میں قوم کی ہے امت مسلمہ کی ہے، قائد اعظمؒ اگر برصغیر کے عظیم راہنما تھے تو محترمہ فاطمہ جناح عظیم خاتون راہنما تھیں، جن میں شخصی خوبیاں تو کوٹ کوٹ کر بھری تھیں مگر سادہ ایسی کہ کبھی غرور و تکبر ، دکھاوا اور احساس برتری کی جھلک تک ان کی زندگی میں نظر نہیں آتی، اسی خدمت نے قائد اعظمؒ کو ایک غیر مرئی طاقت بخشی اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی عظیم مملکت کا معجزہ ان دونوں بہن بھائیوں کے سر باندھا، قدرت بھی بے نیاز ہے مگر قدرت کے فیصلے ایسے ہی انسانوں کے لئے ہوتے ہیں جو ہوتے تو گوشت پوست کے ہیں مگر ان کے ارادے اور فیصلے پہاڑوں سے بھی اٹل اور مظبوط ہوتے ہیں ، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قائد اعظم کی زندگی میں نہایت اہم اور نمایاں کردار ادا کیا، قائد اعظم کے بعد اگر کسی ایسی شخصیت کا ذکر مقصود ہو جس کی عدم موجودگی میں پاکستان کا قیام ناممکن ہو تو پھر فاطمہ جناح کا ہی نام آئے گا، ۔محترمہ فاطمہ جناح نے سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی و فلاحی کاموں کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔آپ 9 جولائی 1967 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں ۔عام طور پر خیال پایا جاتا ہے کہ آپ کی موت طبعی نہ تھی آپ کے جنازے میں تقریبا 4 لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ ان کو مزار قائد کے احاطہ میں دفن کیا گیا ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes