بجٹ سال ۲۰۱۶؍۲۰۱۷ ء

Published on June 4, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 490)      No Comments

Afsar
ملائشیا کے قومی لیڈر محترم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جب حکومت چھوڑی تھی اس کے بعد ایک مشہور زمانہ انٹرویو دیا تھا جس میں دوسری باتوں کے امریکہ اور مغرب کی اسلام دشمنی کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر کسی ملک کو ختم کرنا ہے تو اسے آئی ایم ایف کے حوالے کر دو۔آئی ایم ایف آہستہ آہستہ اُس ملک کو قرضوں کے چکر اور سود در سود کے چکر میں ختم کر دے گا ۔ بات یہ ہے کہ نواز حکومت کے وزیر خزانہ نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا ہوا ہے اور واقعی ملک تباہی کے دھانے پر کھٹر اہے۔ ان حالات میں نوازحکومت کے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سال ۲۰۱۶؍۲۰۱۷ء کے لیے نواز حکومت کاچوتھا بجٹ جو۴۹؍ کھرب کا ہے بجٹ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا۔اسے بحث اور کمی بیشی کے بعد پارلیمنٹ پاس کرے گی۔ نواز حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں ممبران کی جو دو تہائی اکثریت ہے اس کی وجہ سے آسانی سیبجٹ۲۰۱۶؍۲۰۱۷ء پاس ہو جائے گا۔ اس سے قبل کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب نے اوپن ہارٹ آپریش سے پہلے لندن سے ویڈیو لنک انتظام کے تحت بجٹ تجاویز کی منظوری دی تھی۔بجٹ میں پہلے کی طرح آمدنی بڑھانے کے لیے نئے ٹیکس تجویز کئے گئے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ بجٹ آنے کی وجہ سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ۳۷ ہزار پوئنٹس کا ایک اور تاریخی سنگ میل عبور کر لیا۔اُدھر ایک نجی ٹی وی اسٹیشن کے پروگرام میں ایک اقتصادی ماہر نے حکومت پر الزام لگایا کے معاشی ترقی کم تھی جسے وزیر خزانہ کے دفتر میں بیٹھ کرذبردستی پاکستان کے بیرو آف اسٹیٹکس سے تبدیل کرواکر رواں سال کے لیے۱۔۴ سے۷۔ ۴ فی صد کی شرح تک بڑھائی گئی۔ حکومت کی طرف سے اس گروتھ کو آٹھ سال کی بلند تر سطح کہا گیا ہے۔ اقتصادی تجزیہ کار ویسے بھی پاکستان کے بجٹ کو الفاظ اور اعداد شمارکا گورکھ دھندہ ہی کہتے ہیں۔ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ اس بجٹ میں۱۲۷۶ ؍ارب خسارے بتایا گیا ہے۔ ۶۔۲۱؍ارب ڈالر کا محفوظ سرمایہ بتایا جاتا ہے۔ یہ عوام کو دھوکا ہے یہ بیرونی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر بڑھایا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہر پاکستان بیرونی مالیاتی اداروں کاایک لاکھ بیس ہزار کا مقروض ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کی بیرونی قرضوں کی انتہائی سطح ہے۔ ایف بی آر کو۳۶۲۱؍ ارب ٹیکس جمع کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے اس سے مہنگائی بڑھے گی۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے۱۳۶۰؍ ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ حکومت کے مطابق تین سالوں میں ٹیکسوں کے شروع میں ۶۰ ؍ اضافہ ہوا ہے۔ ضرب عضب کی وجہ سے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے پاکستانیوں کی آباد کاری کے لیے۱۰۰؍ارب رکھے گئے ہیں جو ایک اچھی بات ہے یہ لوگ پاکستان کے وفادار ہیں ان لوگوں نے فاٹا سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا ہے اب جبکہ سپہ سار کے مطابق ۹۰؍ فی دہشت گردی ختم ہو گئی ہے۔ لہٰذا ان کو فوراً اور ہر حالت میں اپنے علاقوں اور گھروں میں آباد کرنا چاہیے۔ ۱۱؍ فیصد اضافے کے ساتھ۸۶۰ ؍ارب برائے دفاع رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی اچھی بات ہے ہماری مسلح افواج ازلی دشمن کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے ملک حالت جنگ میں ہے ۔بھارت افغانستان اور امریکا کے ساتھ مل کرکراچی اور بلوچستان میں کھلی مداخلت کر رہا ہے آئے روز ہمارے سیکورٹی ادارے بھارتی جاسوس پکڑ رہے ہیں اس لیے ان کو فنڈ کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مطابق سال ۲۰۱۸ء مارچ ۱۰۰۰۰؍ میگا واٹ بجلی بڑھائی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے پاکستان کی ضرورت پوری نہیں ہو گی اس وقت بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کہا گیا کہ کپاس کی خراب فصل کی وجہ سے معاشی ترقی کمی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں بھی کمی ہوئی ہے اور پاکستان میں امپورٹ بڑھ گئی ہے جس سے مہنگائی بڑھی ہے۔ ایک اور اچھی بات کہ گورنمنٹ ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں میں ۱۰؍ فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ وفاقی ملازمین کی تنخواؤں میں بھی کے لیے ۱۰ ؍فی صدایڈک اضافہ کیا گیا ہے۔ سیمنٹ پر ایک فی صد یکسائز ٹیکس لگانا تجویز ہے جس سے سیمنٹ کی فی پوری میں ۵۰؍روپیہ کا اضافہ ہو جائے گا۔ سیمنٹ کے استعمال سے غریب عوام کے رہنے کے لیے فلیٹ بنائے جاتے ہیں اس سے فلیٹ مہنگے ہو جائیں گے۔مزدور کی اُجرت۱۳۰۰۰؍ سے ۱۴۰۰۰؍ کر دی گئی ہے کیا اتنے پیسوں سے مزدورں کے گھر چل سکیں گے۔ حکومت کے مطابق ملازمین کے معاوضے میں اضافے سے مل جل کے سب خرچہ ۵۷ ؍ارب بنتا ہے۔۳۰؍ لاکھ سے زائد مالیت کی پراپرٹی پر ٹیکس میں اضافہ کی تجویز ہے جس سے غریب عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ ایک فی صد سپر ٹیکس ایک سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا جو اچھی بات ہے اسے مزید بڑھانا چاہیے۔مجمومی طور پر۴۳۹۴ ؍ ارب روپے اخراجات دکھائے گئے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کی بجٹ نشریات میں لاہور کے ایک انڈسٹریلسٹ کے مطابق انڈسٹری کے لیے بہتر بجٹ ہے۔ سراج الحق امیرجماعت اسلامی سینیٹر نے کہا کہ مزدور کے لیے ۱۴۰۰۰؍ کی تنخواہ کم ہے۔ اتنی تنخواہ میں گھر چل نہیں سکتا ہے۔ اس کو کم از کم ۲۰۰۰۰؍ ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں
بجلی کی فوری ضرورت ہے لوڈ شیدنگ ہو رہی ہے۔ انڈسٹری بھی بجلی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی ۔ بجلی کی دستیابی کے لیے فوری انتظامات کی ضرورت تھی ۔ اس بجٹ میں بجلی کے لیے فوراً کوئی انتظامات نظر نہیں آئے اب بھی کہا گیا کہ ۲۰۱۸ء مارچ تک ۱۰۰۰۰ میگا واٹ بجلی ملے گی۔حکومت کے ہی مطابق ۲۰۱۸ء میں ۲۵۰۰۰ میگاواٹ کی ضرورت ہو گی جبکہ پروڈکشن ۱۸۰۰۰ء ہو گی اس طرح حکومت کے مطابق ۷۰۰۰ میگاواٹ کی کمی پھر بھی ہو گی۔ معلوم ہوا کہ ۲۰۱۸ء میں بھی لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہو گی۔ اب بھی ایکسپورٹ پہلے سال سے ۱۰؍ فی صد کم ہے۔ کراچی کے ایک صنعت کار کے مطابق اس دفعہ بھی کئی اشیا پر نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ بجٹ کوالفاظ اور اعداد شمار کاگورکھ دھندہ سمجھا جاتا ہے جو عوام کے لیے اس سال بھی مصیبت ثابت ہو گا۔لاہور کی الیکٹرونک مارکیٹ کے تاجروں کے مطابق جب تک اسمگلنگ کو کنٹرول نہ کیا جائے گا مہنگائی بڑے گی۔ یہ حکومت کا اپنا بجٹ ہے اپوزیش کے پریشئر کے تحت بجٹ پیش کیا گیا جو پہلے سے بھی بُرا ہے۔ کیا بجلی کے بلوں میں کمی کی گئی ہے۔کیاا شیاء پر ڈ یوٹی کم کی گئی ہے کیا مہنگائی کم ہوئی ہے۔ بین الاقوامی طور پرپٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے باجود قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی جو عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ بغیر مردم شماری کے بجٹ پیش کیا گیا ہے جو صحیح نہیں۔ حکومت کے دعوے کے مطابق کہ ہر سال بہتری آ رہی ہے بھی صحیح بات نہیں۔ بجٹ پر نجی ٹی وی کے پروگرام میں لاہور کے تاجروں کے مطابق نوٹ کیا گیا ہے کہ ہر روز لاہور مال روڈ پر کبھی کسان ،کبھی ڈاکٹر، گورنمنٹ ملازمین اور نرسین احتجاج کر رہی ہوتیں ہیں اگر حالت صحیح ہوتے تو لوگ احتجاج کیوں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ نہیں رہی بلکہ اس میں ۱۰؍ کم ہو گئی ہے۔ اورامپورٹ بڑھ گئی ہے جس پر زو مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ گو کہ اس بجٹ میں زراعت پر زیادہ زرو دیا گیا ہے جواچھی بات ہے مگر انڈسٹری پر زور نہیں دیا گیا۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان سے ۴؍ بلین روپیہ باہر منتقل کر دیا گیا ہے جو دبئی میں سب سے زیادہ منتقل ہوا ہے۔ ملک میں کرپشن کا بازار گرم ہے جس میں سب شامل ہیں۔ سیاست دانوں کی پراپرٹیز باہر ہیں۔ ان کے بچے باہر پڑھ رہے ہیں۔ سیاست دان باہر بیٹھ کر ملک کو چلا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ممبران کی ایک بڑی تعداد ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرتی جس کا مطلب ہے وہ ٹیکس بل لکل نہیں دیتے۔ غریب عوام کہتی ہے کیا اس بجٹ میں آٹا، چاول، دال اور گھی سستا کیا گیا ہے۔ کیا کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ نہیں کی گئی۔ بلکہ ٹیکسوں کی وجہ سے مزید مہنگائی بڑھے گی۔ہمارے ملک میں عوام سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔ اللہ ہمارے سیاست دانوں کوہدایات دے تاکہ وہ روایتی بجٹ کے بجائے غریب پرور بجٹ پیش کریں۔ جس میں عوام کو ریلیف ملے نہ کہ ہمیشہ کی طرح بجٹ امیروں کے اپنے فائدوں کے لیے ہو۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog