شہر قاہد کے احوال کے بعد

Published on September 1, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 474)      No Comments

Dr-Imtiaz
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر امتیا ز علی اعوان
ایم کیو ایم کے قاہد اور غدار الطاف عر ف بھائی کی پا کستان مخا لف تقریر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے میڈیا اب ملک کی اندوروانی سیاست کی بجائے ایم کیو ایم اور نائن زیرو اور کراچی میں رینجر ز کی کا رائی الطاف حسین کے خلاف غداری کے پر وگرام نشر کر نے میں مصروف ہیں اپو زیشن، سیاسی جماعتیں آجکل عوام کی دسترس پر قدم بو سی لیتی نظر آرہی ہیں سیاسی کھلا ڑی دونوں طرف سے مفاد پرست بغل بچے ایک دوسرے کے خلاف بیان مے ڈیا کے ذریعے توپوں سے جے سیون تھینڈ مزائل داغ ہی نہیں رہے بلکہ توپیں میڈیا پر آگ بر سا رہی ہیں۔ادھر تبدیلی والی سرکار نے رائیونڈ کا گھیراؤ کرنے سمیت عید کے بعدایک بارپھر تازہ دم ہو کر متحدہ اپوزیشن بنا کر احتجا ج کر نے کی راہ ہموار کر نے کے لیے مختلف جما عتوں کی حمایت لینے کی بھر پور کو شش میں مصروف ہیں،عمرانی قیادت کا پہلے تو رائیونڈ کی طرف بڑھنے کا ارادہ تھا شہنشاہ پنجاب میاں بر ادران کے جوشیلے ایم این ایز و ایم پی ایز نے تو دبے لفظوں میں ٹانگیں تو ڑ ڈالنے کی چہ مگوئیاں سنائی ہیں ، چےئرمین عمران خا ن میاں بر ادران سے استعفیٰ مانگ رہے ادھر پا کستا ن عوامی تحریک قاہد انقلابی جو شیلی تقریر کے ماہر بابا ئے انقلاب مشرق و مغرب طاہر القادری میں قصا ص ریلی کی شکل میں راولپنڈی میں ملک کے مختلف حصوں سے کارکنا ن کو جمع کر کے مداری کی طرح مجمہ سجا نے کی بھر پور کو شش میں مصروف ہیں ، پی ٹی آئی کے کارکنا ن بار بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر بلند و بانک دعوے و اعلا عانا ت کر رہے ہیں یہ منہ اور مسور کی دال،قائدین حکم دیں تو بنی گالہ کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالیں گے ۔ ن لیگ کے بھونکنے والے کتے بھی پی ٹی آئی کو بوری میں بند کردیں گے ،کتے بھونکتے رہتے ہیں اور کارواں چلتا رہتا ہے غرضیکہ جس کے منہ میں جو اول فول آرہا ہے وہ پورے زور سے بَکا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن ،تبد یلی والی سرکار عوام کو الو ہی نہیں بلکہ الو کا پٹھا سمجھتے ہیں۔مفاد پرست سیاسی طبقات جو کہ دراصل سرمایہ دارانہ مفادات کے علمبردار ہیں۔یہ سبھی غریب بے کس اور نچلے طبقے کے افراد کو بیوقوف سمجھتے ہیں غریب آدمی جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور وہ افراد جو بمعہ ننھے بچوں کے جل مر رہے اور خود کشیاں کر رہے ہیں انھیں اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ شریف رہیں ،عمران آئیں یا پیپلز پا رٹی آئے یا پھر کوئی دوسراتخت پر براجمان ہو ان کے لیے سبھی ایک ہیں وہ تو ہر وقت خدا کے حضور گڑ گڑاتے سجدہ ریز ہو کر دعائیں مانگ رہے ہیں کہ کوئی ایسی طوفانی بارش سیلاب آئے یا خونی آندھی چلے ۔جس سے مفاد پرسست سیاسی افراد شدید متاثر ہوں یا پھر آسمانی بجلی گر کر انھیں بھسم کرڈالے ۔وہ دریا برد نہیں بلکہ سمندر غرق ہو جائیں۔لو گ انھیں در بدر کرڈالنے اور ٹھوکریں کھانے پر چھوڑ دینے واالوں کے لیے جھولیاں پھیلا کر بد دعائیں کر رہے ہیں کہ مولا کسی طرح ایسی نام نہاد سیاسی اشرافیہ کو زندہ درگور کرڈالو کہ کوئی تو خود بمعہ اپنی اولادوں کے مقتدر رہ کر ملکی سرمایہ ہڑپ کر کے بیرون ملک دفنا رہا ہے اور کوئی اقتدار انجوائے کرکے بمعہ مال و متال بھاگ کر بیرون ملک پناہ گزین ہیں سبھی ملک کے کسی حصہ میں مقتدر ہیں اور دوسری جگہ حزب اختلاف کی چابی جیب میں ڈالے پھرتے ہیں عمران خان اور مولانا صاحب بھی مقتدر ہیں اور شریف برادران تو تخت لاہور و اسلام آباد پر براجمان ہیں دراصل جھگڑا صرف پورے کا پورا مال ہڑپ کرکے بہر ون مما لک لے جانا ہے ان کے بینک بیلنس کا کو ئی حساب ہی نہیں، رائے ونڈی،بلاول ہاؤسز اور بنی گالائی محلات غریب کو جھونپڑیاں تک بھی نصیب نہ ہیں اگر یہ آپس میں جھگڑا نہ کریں تو وگرنہ لوگ تو ان کی آپس کی لڑائیوں میں ملوث ہو کر انھی سے ہی کسی کے بوٹوں کا تسمہ بننے پر مجبور ہیں سرمایہ دارو ں کا یہ گھن چکر یوں ہی رواں دواں ہے۔اور ملک و عوام کے مال دار طبقات میں سے ہی کوئی نہ کوئی عوام کی گردنوں کے اوپر سے پھلانگ کر حکومتی تخت پر بر جما ن رہتا ہے۔ اب بھلازرداریوں، شریفوں گیلانیوں ،ترینوں،قریشیوںیا علمائے کا کٹھ جوڑ درباری ملاؤں کو مزدوروں کسانوں کے مسائل کا کیونکر الہام ہو گا انھوں نے شدید گرمیوں اور برفانی سردیوں میں کبھی مزدوری نہ کی ہے اور نہ کھیتوں کو سیراب کیا،اس میں فصلیں بوئی ہیں نہ کاٹی” مزدور کا مسئلہ مزدور اور کسان کا مسئلہ کسان ہی سمجھ سکتا ہے اور لازماًاسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہو گا۔جاگیردار وڈیرے تو اپنی جاگیروں و محلات کے قریب کوئی سکول تک بننے نہیں دیتے کہ پھر ان کی چو ہد رہٹ ختم ہو جانے کا انھیں ڈر ہر وقت رہتا ہے اور انکی بھینسوں اور ڈھور ڈنگر کو چارا کون ڈالے گا؟انھیں یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ مظلوم غریبوں کا بچہ جو انکی جوتیاں سیدھی کرتا ہے گھر بار ،مہما ن لا ٹھی کی خدمت کر تا ہے اگر پڑھ لکھ گیا تو ہو سکتا ہے کہ انھی کے متعلقہ تھانے میں آکر تھانیدار لگ جائے تو پھر ساری پرانی کسریں لازماً نکالے گا۔ اور انھیں ہی گرفتار کرکے مزا چکھا سکتا ہے اپنے ہی پاؤں پر کون کلہاڑی مارتا ہے چلے آ ؤ کہ گلشن کا کاروبار” چلتا رہے۔خزانوں سے اربوں روپے قرضے لے کر معاف کرانے والوں کے لیے کو ئی قانون نہیں، جس غریب نے مکان کی تعمیر کے لیے قرضہ لیا اور ادائیگی نہ کرسکا اس کا مکان قرق کرلیا جاتا ہے موجودہ مغربی لادینی جمہوریت کی سیاسی پیداوار تو ایسے ہی افراد رہیں گے جب تک انتخابی قوانین تبدیل کرکے ہر طبقہ کے افراد کے لیے بلحاظ تعداد آبادی اسمبلیوں کی سیٹیں مختص نہیں کی جاتیں اور ایسے امیدواروں کی انتخابی مہم حکومتی خرچوں پر نہیں چلتی۔ ممبران اسمبلی سود خور سرمایہ دار،انگریزوں کے پیدا کردہ ظالم جاگیردار،کرپٹ وڈیرے اور سود در سود وصول کرنے والے ناجائز منافع پرست صنعتکار ہی منتخب ہوتے رہیں گے اور عوام کو دکھانے،ورغلانے اور انھیں الو بنائے رکھنے کے لیے آپس میں اقتداری ہڈی کو حاصل کرنے کی جعلی لڑائیاں ،دھرنے بازیاں ،جلسوں میں الزام تراشیاں اورگالی گلوچ کے مقابلے ہی دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔صدر ایوب کی اولاد نے پہل کی،پھر بھٹو پارٹی میں شامل جاگیرداروں نے خوب کمائیاں کی اسلامی مارشلائی ضیاء الحقی دورمیں باقاعدہ کلہ مضبوط کرنے کے لیے ہر نامزد ممبر مجلس شوریٰ کو ڈھیروں سرمایہ ملنے لگا اور کئی نو دولتیے گھر آباد ہو گئے اس وقت سے لے کر آج تک سرمایہ پرستوں کی ہڈی عوام کے گلوں میں ایسے پھنسی ہے کہ کسی میجرسرجری سے بھی نہیں نکل پائی وہ نہ اگلی جاسکتی ہے نہ نگلی۔ شریف برادران کا بوٹا ضیاء الحقی مارشل لاء کے دور میں گملے میں اگااور آج تو پھل پھول کر تناور درخت بن چکا ہے بلکہ اتنے بچے جہنم دے چکا ہے کہ جس کی زیر زمین زہریلی جڑیں ملک کے تمام اہم طبقات ،بیورو کریسی وغیرہ میں پھیل چکی ہیں جنھیں مسلسل انسانی خون ہر دور میں سیراب کرتا چلا آرہا ہے اور ہمارے صنعتکاروں کو تو خون مزدور شرابوں میں ملاکر پینے کی عاد ت سی پڑ چکی ہے اب آپ ان سے ا قتداری کنجیاں چھیننا چاہتے ہیں ویسے ان کو ہٹا کر بھی مقتدر ہو جانے کے لیے تیار وہی مخصوص جاگیردار سرمایہ دار تیار ہیں نئی ہو یا پرانی ہر بڑی سیاسی جماعت پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ہر حکومت میں ان کا سیاسی ملا ؤں و چوہد ریوں و ڈھیروں کا لا زمی حصہ ہو تا ہے

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes