آئندہ الیکشن میں کیا ہوگا؟۔

Published on May 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 341)      No Comments

تحریر ؛ چودھری عبدالقیوم
موجودہ حکومت اور اسمبلیاں اپنے آخری ایام گذا ررہی ہیں ابھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا لیکن ملک میں تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے آئندہ الیکشن کے لیے اپنی اپنی انتخابی مہم بھی شروع کردی ہے۔سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں کامیابی کے لیے اتحاد قائم کرنے اور امیدواروں نے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔امیدوار ٹکٹ کے حصول کے لیے وفاداریاں بھی تبدیل کررہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی سرگرمیوں میں تیزی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئے گی۔کل کے سیاسی دشمن نئے دوست بن جائیں گے۔سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ہماری سیاست کی پرانی روایت ہے۔اسے نہ سیاسی جماعتیں برا سمجھتی ہیں اور نہ ہی امیدوار اس چیز کو غلط سمجھتے ہیں۔ رہے ووٹر بیچارے تو انھوں نے تو صرف ووٹ دینا ہے وہ بھی نہیں دیکھتے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار کیا کررہے ہیں ۔ایک امیدوار پچھلی بار ایک جماعت کیطرف سے الیکشن لڑرہا تھا تو اس دفعہ کسی دوسری جماعت کیساتھ کھڑا ہے۔سیاسی جماعتیں،امیدواروں سمیت ووٹرز اسے معیوب نہیں سمجھتے۔وطن عزیز میں نظریاتی اور اصولوں کی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔سیاست میں یہ تبدیلی جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں آئی جب انھوں نے اپنے مارشل لائی اقدامات کو تحفظ دینے اور اسے جاری رکھنے کے لیے 1985ء میں پہلی بار غیرجماعتی بنیادوں عام انتخابات کرائے اس طرح سیاسی جماعتیں الیکشن سے باہر ہوگئیں تو اس کے نتیجے میں پرانے روائتی سیاستدانوں کی جگہ نئے لوگ سیاست میں داخل ہوگئے ان میں وہ لوگ بھی اسمبلیوں کے ممبر بن گئے جنھوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا۔ان میں موجودہ سیاستدانوں میں۔سابق وزیراعظم میاں نوازشریف،موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی مرحوم وغیرہ سمیت دیگر لوگ شامل تھے جو جنرل ضیاء کے غیرجماعتی الیکشن کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے۔یہاں سے پاکستان کی سیاست کا ایک نیادور شروع ہوا ۔جس میں سرمائے کا استعمال عام ہوگیا ورنہ اس سے پہلے سیاست میں سرمائے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔سیاست میں اصول اور نظریات کی بڑی اہمیت تھی ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ ہی میدان سیاست میں داخل ہوتے تھے۔ممبران اسمبلی میں عام اور غریب لوگ شامل تھے جو اپنی نظریاتی اور اصولی سیاست کی بنیاد پر آگے بڑھتے تھے اور انھیں لوگوں کو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ جاری کرتی تھیں یہ ابھی کل کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نہایت غریب اور غیر معروف لوگوں کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ٹکٹ دئیے اور اقتدار کے ایوانوں مین پہنچایا۔ان میں مولانا کوثر نیازی،جہانگیربدر ،قصور سے اللہ دتہ نامی سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے جیسے بہت زیادہ لوگ شامل تھے جن کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں تھا بعد ازاں مولانا کوثر نیازی اور جہانگیر بدر وفاقی وزیر بھی بنے۔ لیکن یہ پکے نظریاتی لوگ تھے سیاسی جماعت تبدیل کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھاسیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ایک شرم ناک فعل تھا ۔ 1985ء کے بعد جہاں سیاست میں سرمائے کا استعمال عام ہوا تو سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنا بھی ایک فیشن بن گیا ۔آج بھی پارٹی تبدیل کرنے والے لوٹا کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ پارٹی تبدیل کرنے والا اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ۔وطن عزیز میں ایسے کئی سیاستدان موجود ہیں جو جنرل ضیاء سے لے ہر پارٹی میں شامل ہوتے آرہے ہیں ایسے لوگوں نے ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کی اور اقتدار کو ہی اپنا قبلہ اور کعبہ سمجھا۔ یہ ہمارے ملک میں سیاست کی بڑی بھیانک تصویر اور ایک قومی المیہ ہے ۔لیکن افسوس کہ قومی سطح پر کا اس کا احساس نہیں کیا جارہا ہے اگر غور کیا جائے تو ہمارے بہت زیادہ مسائل کیوجہ بھی یہی ہے کہ ہماری سیاست میں قومی سوچ سے عاری لوگوں کا قبضہ ہے اور ایسے لوگ ہماری راہنائی کررہے ہیں۔ آج پورے پاکستان میں ایک بھی ممبر اسمبلی مثال کے طور پر بھی نہیں پیش کیا جاسکتا جو کروڑپتی نہ ہو اور جس کے پاس پجارو نہ ہو۔مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف یا کوئی بھی پارٹی ہو اس میں کروڑ پتی لوگوں کی لائینیں لگی ہوئی ہیں۔کیونکہ پاکستان میں سیاست سرمائے کا کھیل بن چکا ہے جس میں ایک عام غریب آدمی کا ووٹ ڈالنے کے سوا کوئی کردار نہیں۔آئیندہ الیکشن میں بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے اسمبلیوں میں کروڑ پتی اور ارب پتی لوگ ہی جائیں گے۔تحریک انصاف کے عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن اس کے آگے پیچھے بھی ٹکٹ لینے کے لیے کروڑپتی لوگوں کا ہجوم ہے۔جیسا کہ سینٹ الیکشن میں ایک عرصہ سے سرمائے کا استعمال ہوتا آرہا ہے ووٹ خریدنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں سینٹ کے حالیہ الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا ۔جس کیوجہ سے برسراقتدار مسلم لیگ ن جس کے پاس ممبران اسمبلی کی اکثریت تھی لیکن اسے سینٹ کا چیئرمین بنانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس پر انھوں نے احتجاج بھی کیا لیکن کوئی بھی الیکشن میں سرمایہ خرچ کرنے کیخلاف قانون سازی نہیں کرے گا کیونکہ ایوانوں میں سرمایہ داروں کی اکثریت ہے وہ کوئی ایسا قانون کبھی نہیں بنائیں گے جس سے سرمایہ دار کی بجائے کوئی عام غریب آدمی ممبر اسمبلی بن جائے۔یہ لوگ ملک کی سیاست میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی واپسی بہت مشکل نظر آتی ہے۔کیونکہ ان لوگوں نے سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار بناکر رکھ دیا ہے جس میں سرمایہ لگایا جاتا ہے اور سرمایہ منافع کیساتھ کمایا جاتا ہے اوپر سے شان و شوکت اور حکمرانی کے مزے مفت میں ملتے ہیں۔اس کی ایک مثال اسطرح بھی ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں تو اس میں وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم اور وزرا بہت کم شرکت کرتے ہیں کیونکہ انھیں ان اجلاسوں میں شامل ہو کر ملک اور قوم کے لیے قانون سازی کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا یہ ایجنڈہ ہوتا ہے انھیں کرنے کے لیے اور بہت کام ہوتے ہیں انھیں اپنی دولت بڑھانے کی فکر ہوتی ہے جس کے لیے وہ سرمایہ خرچ کرکے یہاں پہنچتے ہیںیہ چیز ہمارے ملک کی سیاست اور جمہوریت کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتی ہے جسے ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی طور ختم کرنا ہوگا۔تب ہی ملک صعح معنوں میں ترقی کرے گا عوام کے مسائل ہونگے اور پاکستان حضرت قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر بنے گا ۔انشائاللہ تعالیٰ

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes