ایک شام ’’جمشید مسرور‘‘ کے نام

Published on January 24, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 781)      No Comments

\"JM
میزبان محفل ڈاکٹرصباحت عاصم واسطی نے جمشید مسرور کو اُنکی ادبی خدمات کے اعتراف میں بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا
ابوظہبی( حسیب اعجاز عاشر) ناروے سے تشریف لائے معروف جمشیدمسرورکے اعزاز میں ڈاکٹر عاصم واسطی کی میزبانی میں ایک خوبصورت ادبی محفل ’’ایک شام جمشید مسرور کے نام‘‘ کا اہتمام کیا گیا،ناروے میں اردوو ادب کے فروغ کے حوالے سے جمشید کی کاوششوں کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔جمشید مسرور نے ۱۹۴۶میں ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی،پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا،سٹیٹ بنک آف پاکستان سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں،۱۹۷۵سے بسلسلہ روزگار ناروے میں مقیم ہیں اور ۱۹۷۸ سے ریسرچ کونسل آف ناروے کے ممبر بھی ہیں۔۱۹۸۹میں انکا پہلا مجموعہ کلام ’’شاخِ منظر‘‘پاکستان میں شائع ہوا،جبکہ دو مجموعے ناروے میں شائع ہوئے جن میں’’میری خوشبویں میرے پھول‘‘،’’دیوارِ ہوا پے آئینہ‘‘ شامل ہیں۔جمشید مسرور اُردو کے علاوہ نارویجین زبان پے بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں اِنکے مجموعے ’’لمحوں کے سمندر ‘‘۱۹۹۴ میں اور’’ پچھلے برس کی دھوپ‘‘۲۰۰۳ میں اردو کے علاوہ نارویجین زبان میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔انکے کئی نارویجین نثری مجموعے ناروے میں بے حد مقبول ہیں۔انہیں ۹۱ ۱۹ میںیورپ کا بہترین اُردو شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اِنکو۱۹۹۸ میں اردو ادب کے فروغ کے حوالے سے انڈین ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے،جبکہ سٹی گورنمنٹ آف اوسلو سے ۱۹۹۹ میں آرٹسٹ ایوارڈ بھی وصول کر چکے ہیں۔
محفل کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا جسکی سعادت سلمان خان نے حاصل کی ۔ مقصود احمد تبسم نے اپنا نعتیہ کلام پیش کر کے سرکارِ دو عالم کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔مسندِ صدارت پے سرفراز حسین کو مدوح کیا گیا۔نظامت کے فرائض سلمان خان نے انجام دئیے۔ظہور الاسلام جاوید، سرفراز حسین، ڈاکٹر عاصم واسطی، سید پسروری،سحرتاب رومانی،یعقوب عنقا، ک م حسرت، طارق حسین بٹ،فقیر سائیں،سلمان خان، ظہیربدر،فرہاد جبریل، جاوید حیات، عبدالاسلام عاصم، نیرنیناں نے اپنے اپنے منفرد کلام اور انداز سے خوب داد حاصل کی۔میزبان محفل ڈاکٹر صباحت عاصم نے کہا کہ جمشید مسرورکی بھرپور ادبی ماحول سے دور رہتے ہوئے بھی ادب کے فروغ میں پیش کی گئیں گراں قدر خدمات قابلِ ستائش ہیں۔انہوں نے کہا کہ شاعری کے بجائے اپنی پرفارمنس پے بڑے مشاعروں کی زینت بننے والوں کے باعث سنجیدہ شاعر نظروں سے اُوجھل رہتے ہیں اور کچھ شخصیات اردو و ادب کے فروغ میں اپنا دن رات صرف کر دیتے ہیں مگر منظرنامے سے غائب رہتے ہیں مگر انہیں تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے ،جمشید کا نام بھی اُسی فہرست میں شامل ہے،اِنکی اردو ادب کے فروغ کے حوالے یورپ میں گراں قدر خدمات ہیں جسکا ہر ادبی فورم پے اعتراف بھی کیا جاتا ہے،ڈاکٹر عاصم واسطی نے جمشید مسرور کے ادبی سفر پے روشنی بھی ڈالی۔انہوں نے جمشید مسرور کو مائیک پے مدوح کرتے ہوئے کہا کہ اِنکی شاعری میں ایک منفرد حسن ہے جس کی سامعین خود تصدیق کریں گے۔جمشید مسرور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہ میں اتنی خوبصورت محفل کے انعقاد پر ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کا تہہ دل سے مشکور ہوں انہوں نے دیارِ غیر میں فروغِ ادب کے لئے ڈاکٹر واسطی اور ظہورالاسلام جاوید کے خدمات کو سراہااور اِس اُمید کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ اِسی طرح اپنے پوری قوت کے جاری رہے گا۔اِنکے پیش کی گئے کلام پرسامعین بے اختیار داد و تحسین کے نعرے بلند کئے بغیر نہ رہ سکے۔پنجابی میں پیش کی گئی نظم نے تو سماں ہی باندھ دیا۔محفل میں امارات کے نامور شخصیات اور ممتاز اہلِ قلم حضرات نے شرکت کی۔
محفل ’’ایک شام ’جمشید مسرور‘ کے نام‘‘ میں شعراء اکرام کے پیش کئے گئے کلام سے چند اشعار
مقصود احمد تبسم(نعت)
چلتا نہیں بازارِ حرا میں پر جبریل
سکہ ترے قدموں کا چلے غار حرا میں
ارسلان بٹ
لگی آگ جو گھر کو تو ڈر کیسا
شعلہ عشق تو نہیں کہ بجھا نہ سکوں
جاوید حیات
ہر کِسی میں یہاں بس جانے کا دم تھوڑی ہے
یہ میرا دل کوئی زاہد کا حرم تھوڑی ہے
نیرنیناںؔ
تجھے چار دن کی جو مہلت ملی
نکل آئے تیرے بھی پَر زندگی
عبدالسلام عاصم
جو دیکھنے والا تھا وہ منظر نہیں دیکھا
خود اپنے ہی پیڑوں کو ثمرور نہیں دیکھا
فرہاد جبریل
چاند کی جانبِ صرف اِشارہ کرنا تھا
اصل میں ہم نے ذِکر تمہارا کرنا تھا
فقیر سائیں
فرشتوں سے گزارش ہے ذرا باہر ٹھہر جائیں
کہ سائیں سے ابھی ماں کی دعائیں بات کرتی ہیں
ظہیر بدر
اک قرض رگ جاں سے اترنے نہیں دیتا
اک فرض مجھے حد سے گزرنے نہیں دیتا
طارق حسین بٹ
کوئی زنجیر نہ کوئی زنجیر ہلانے والا
منصف شہر ہے خود آگ لگانے والا
م۔ ک ۔حسرت
مزاج اپنے ہیں اک دوسرے کی ضد حسرتؔ
وہ ہجر پڑھتی رہی میں وصال لکھتا رہا
محمد یعقوب عنقا
مجھے تو یوں بھی سمندر ہی ظرف رکھنا تھا
میں جانتا تھا کہ میرا رقیب دریا ہے
سحرتاب رومانی
میں نے آغاز کا کہا لیکن۔۔تم تو انجام پر اُتر آئے
یوں ہی مذہب کی بات چھیڑی تھی۔۔آپ اسلام پر اُتر آئے
سعید پسروری
اہلِ دل اور بھی تعمیر کریں تاج محل!!
اِس سے پہلے کہ محبت کو زوال آجائے
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی
صحرا کو رکھ نظر میں سمندر نظر میں رکھ
دو زاویوں سے پیاس کا منظر نظر میں رکھ
ظہور الاسلام جاوید
میری زنجیر وحشت اس لئے کھولی نہیں اس نے
کہیں اس سے جنوں کی ناز برداری نہ ہو جائے
جمشید مسرور
دل ٹوٹ بھی جائے تو دہائی نہیں دیتا
آنسو کبھی گرنے پے سنائی نہیں دیتا
یہ ظوفِ بصارت ہے کہ ہے خون ہی بے رنگ
لگ جائے تو ہاتھوں پے دکھائی نہیں دیتا

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题